7 نومبر، 2024، 2:40 PM

غزہ اور لبنان میں مقاومت کا تسلسل، فتح و کامرانی لشکر اسلام کے قدم چومیں گی، رہبر معظم انقلاب

غزہ اور لبنان میں مقاومت کا تسلسل، فتح و کامرانی لشکر اسلام کے قدم چومیں گی، رہبر معظم انقلاب

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شہید حسن نصر اللہ کے حزب اللہ کو طاقتور بنانے میں غیر معمولی کردار اور ان کی بہادری اور حکمت عملی کو سراہا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح مجلس خبرگان کے اراکین سے ملاقات  کے دوران اس مجلس کو انقلاب کا مربوط ترین ادارہ قرار دیا اور انقلاب کو روکنے اور قوم کو پسماندگی کی طرف دھکیلنے کے بعض محرکات اور سرگرمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قیادت کی اصل ذمہ داری ملک کو انقلاب کے اہداف کی سمت گامزن رکھنا ہے۔ لہذا مجلس خبرگان جو قیادت کے تعین میں منفرد کردار رکھتی ہے، اس اعتبار سے غیر معمولی اہمیت پاتی ہے۔ 

آیت اللہ خامنہ ای نے حزب اللہ اور حماس کی مقتدرانہ مزاحمت کے تسلسل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خدا کی مدد کے ناقابل تردید وعدوں اور گزشتہ دہائیوں میں حزب اللہ اور حماس کی فاتحانہ محاذ آرائی کے تجربات کی بنیاد پر، حالیہ دنوں کے واقعات یقینی طور پر حق اور مزاحمت کے محاذ کی فتح کا باعث بنیں گے۔ 

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس اجلاس میں مجلس خبرگان رہبری کو اسلامی قانون اور نظام میں حاصل مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے انقلابی ترین ادارہ قرار دیا اور کہا کہ اس تعبیر کے استعمال کی وجہ مجلس خبرگان کو رہبر کے انتخاب میں حاصل کردار ہے۔

 انقلاب کا بنیادی ہدف ملک میں اور عوام کی زندگیوں میں توحید کے وسیع معنی کو اسلام کے نفاذ ذریعے اجاگر کرنا ہے۔

 آیت اللہ خامنہ ای نے انقلاب کا اصل ہدف ملک اور عوام کی زندگیوں میں دین اسلام کے نفاذ کو وسیع مفہوم میں "توحید کا عملی جلوہ" قرار دیتے ہوئے فرمایا: قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو نظام کے اس بنیادی مقصد کی سمت ہدایت اور ڈائریکشن کی حفاظت کرے۔

 انہوں نے ملک میں توحیدی معاشرے کے قیام میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے بعض محرکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: وہ انقلاب اور نظام کی اس سمت میں حرکت کو روکنا چاہتے ہیں اور اگر ان کا بس چلے تو وہ ماضی کی رجعتی صورت حال کو ظاہر اور لباس میں دہرائیں گے۔

 رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرانسیسی اور سوویت انقلاب کے بعد کی ایک یا دو دہائیوں میں ان کے اندر پیدا ہونے والے انحراف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا کی تمام عظیم عوامی تحریکوں میں پیچھے کی طرف لوٹنے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں قرآن کریم کی متعدد  تنبیہات کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا: خدا نے قرآن کریم میں متنبہ کیا ہے کہ اگر تم نے کفار کی بات مانی تو وہ تمہیں واپس کفر کی طرف لوٹائیں گے یا پھر تم پسماندگی کا شکار ہوں گے۔

 آیت اللہ خامنہ ای نے اس انحراف اور رجعت کی روک تھام کو ایک اہم عنصر قرار دیتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام میں یہ انتہائی اہم مشن قیادت کو سونپا گیا ہے اور اس فیصلہ کن عنصر کے انتخاب کی ذمہ داری بھی مجلس خبرگان کے کندھوں پر ہے۔ 

 انہوں نے مجلس خبرگان رہبری کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس مجلس کا وجود اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ نظام کے اہداف کی طرف مسلسل حرکت میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ کیونکہ اگر ضرورت پڑی تو مجلس خبرگان فوری طور پر اگلے لیڈر کا تعین کریں گی اور یہ سلسلہ پوری قوت اور صلاحیت کے ساتھ موجود رہے گا۔

 رہبر معظم انقلاب نے افراد پر نظام کے عدم انحصار کو قیادت کے انتخاب میں پوشیدہ حقائق میں سے ایک قرار دیتے ہوئے فرمایا: عہدوں کی یہ منتقلی ظاہر کرتی ہے کہ اگرچہ افراد کے پاس ایسے مشن ہوتے ہیں جن کو انجام دینا ضروری ہے، لیکن نظام ان پر انحصار نہیں کرتا اور ان افراد کے بغیر بھی اپنا راستہ جاری رکھ سکتا ہے۔ 

انہوں نے اسی تناظر میں سورہ آل عمران میں مسلمانوں کے لیے خدا کی تنبیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہجرت کے تیسرے سال، جب کہ اسلامی نظام ابھی قائم نہیں ہوا تھا، تنبیہ کرتا ہے کہ اگر پیغمبر اکرم (ص)  (نظام کی مرکزی اور بنیادی شخصیت) مر جائیں یا قتل کر دئے جائیں تو کیا تم پلٹ جاوو گے؟ 

آیت اللہ خامنہ ای نے مجلس خبرگان کے مقام کی اہمیت کے بارے میں بیان کیے گئے نکات کو رہبر کے انتخاب میں انتہائی درستگی اور خبرگان کی توجہ کی ضرورت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ آئین میں رہبر کے انتخاب کے لئے جن شرائط کا ذکر کیا گیا ہے ان کی شناخت میں انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ تاکہ تمام شرائط بشمول انقلاب کے راستے اور ہدف پر پختہ یقین قلبی، اس راستے پر مسلسل اور انتھک حرکت کے لئے آمادگی اور صلاحیت کی تشخیص انجام پاسکے۔"

شہید حسن نصراللہ اور دیگر مزاحمتی شہداء نے اسلام کو عزت اور مزاحمتی محاذ کو طاقت بخشی۔ 

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ان ایام میں مجاہد کبیر شہید سید حسن نصر اللہ کے چہلم کی آمد پر انہیں اور دیگر مزاحمتی کمانڈروں،  شہید ہنیہ، صفی الدین، یحیی سنوار اور جنرل نیلفروشان کو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان شہداء نے اسلام اور مزاحمتی محاذ کو عزت اور طاقت دی۔ 

انہوں نے حزب اللہ کو شہید نصر اللہ کی لازوال یاد قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ حزب اللہ نے سید مقاومت کی جرأت، تدبر، صبر اور پختہ اعتقاد کی بدولت غیر معمولی ترقی حاصل کی کہ دشمن ہر قسم کے ہتھیاروں اور پروپیگنڈہ کے طاقت سے لیس ہونے کے باوجود اس حیرت انگیز تحریک پر غلبہ نہیں پا سکے اور خدا کے فضل سے آئندہ بھی نہیں پا سکیں گے۔

 حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے غزہ اور لبنان کے جرائم میں امریکہ اور بعض یورپی ممالک کے واضح خونی ہاتھوں کا ذکر کرتے ہوئے لبنان، غزہ اور فلسطین میں مزاحمت کے تسلسل کو حق کے محاذ کی فتح قرار دیا اور فرمایا کہ تحریک مزاحمت کی فتح کے امکانات کی ایک وجہ وعدہ الہی ہے جو جہاد کی اجازت کے بعد مظلوموں کو تاکید کرتا ہے کہ اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو خدا کی مدد کا حصول یقینی ہے۔ 

انہوں نے صیہونی جارحوں کے خلاف گزشتہ چند دہائیوں کی مزاحمتی فتوحات کے تجربے کو حق کے محاذ کی حتمی فتح کے حصول کی ایک اور واضح وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ 40 سالوں کے دوران حزب اللہ نے صیہونی حکومت کو مختلف مراحل میں شکست دی ہے۔ بیروت، صیدا اور صور کے شہر اور آخر کار اس نے جنوبی لبنان سے مکمل طور پر دستبردار ہونے پر مجبور کیا اور اس ملک کے شہروں، دیہاتوں اور بلندیوں کو اس رجیم کے ناپاک وجود سے خالی کر دیا۔"

 دشمن حزب اللہ کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوا اور نہ ہو سکے گا۔ 

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ہر قسم کے فوجی، سیاسی، نشریاتی اور اقتصادی ہتھیاروں سے لیس صیہونی دشمن اور اس کے سرپرست امریکی صدور کی حمایت کے باوجود دشمن کو پیچھے دھکیلنے اور شکست دینے میں حزب اللہ کی حیرت انگیز طاقت اور اس کی صلاحیتوں میں مسلسل اضافے کے باعث انہیں مجاہدوں کے چھوٹے گروہ سے ایک بہت بڑی تنظیم بننے کو قابل ذکر قرار دیتے ہوے کہا: یہی فاتحانہ تجربہ فلسطینی مزاحمت کا بھی ہے۔ وہ 2008 سے اب تک 9 مرتبہ صیہونی حکومت سے لڑ چکے ہیں اور 9 بار اس حکومت کو شکست دے چکے ہیں۔ 

انہوں نے فلسطینی مزاحمت کو صیہونی غاصبوں کے خلاف جنگ کا موجودہ فاتح قرار دیتے ہوئے مزید کہا: اس جنگ میں صہیونیوں کا ہدف حماس کو نابود کرنا تھا لیکن دسیوں ہزار افراد کے قتل عام اور اس کے قائدین کی شہادت کے باوجود وہ اس مقصد کو حاصل نہیں کرسکے اور حماس اب بھی لڑ رہی ہے جس کا مطلب صیہونی حکومت کی شکست ہے۔

 حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے حزب اللہ کو مضبوط اور صیہونی حکومت کے خلاف نبردآزما طاقت  قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ لبنان میں سیاسی شعبوں سے وابستہ افراد سمیت بعض نے اس جہادی تنظیم کے خلاف اپنی زبانیں کھولی ہیں، حالانکہ وہ غلطی پر ہیں اور وہم کا شکار ہیں۔ کیونکہ سید حسن نصر اللہ اور سید صفی الدین جیسی عظیم ہستیوں کو کھونے کے باوجود حزب اللہ اپنے اعلیٰ روحانی جذبے کے ساتھ میدان میں موجود مجاہدین کے ذریعے ایک مضبوط جنگ لڑ رہی ہے اور دشمن اس پر غلبہ نہیں پا سکا ہے اور نہ آئندہ پا سکے گا۔

 انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا اور خطہ ایک ایسا دن دیکھے گا جب صیہونی حکومت کو ان مجاہدین کے ہاتھوں واضح طور پر شکست ہو جائے گی۔ ہمیں امید ہے کہ آپ سب اس دن کا مشاہدہ کریں گے۔

News ID 1927967

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha